چھپ گئے وہ جب نظر سے تو بچا کچھ بھی نہیں...غزل
غزل …٭… چھپ گئے وہ جب نظر سے تو بچا کچھ بھی نہیں رہ گئیں یادیں فقط ان کے سوا کچھ بھی نہیں محفلِ یاراں میں نغمہ سنج ہو تو لوں مگر ''یار پہلو میں نہ ہو جب تک مزا کچھ بھی نہیں'' آنکھوں آنکھوں میں بیاں ساری کہانی کر گیا ہاں مگر اس نے زباں سے تو کہا کچھ بھی نہیں عشقِ لا حاصل جہاں میں ہو گیا لاحق جسے وہ مریض ایسا ہے کہ جس کی دوا کچھ بھی نہیں رہ گیا ملنا ملانا دنیا داری ہی فقط اب دلوں میں چاہت و مہر و وفا کچھ بھی نہیں تم ملے تو کھل گئے گلشن میں چاروں سمت پھول اب اداسی کا بہانہ تو بچا کچھ بھی نہیں ہو گیا ہوں خوِد پہ اب عاکف غنی میں آشکار در حقیقت تو خوِدی سے ماورا کچھ بھی نہیں