غزل …٭… کہیں موجِ حوادث ہے کبھی سیلاب آتاہے جدھر لے جائیں ہم کشتی ، اُدھر گرداب آتا ہے وطن سے دور دل پرکیا بتائیں کیا گزرتی ہے خیالِ دوستاںکرنے بہت بیتاب آتا ہے مقدر رتجگے ہوں تو لگے یہ آنکھ پھر کیسے جگانے یاد کا لمحہ کوئی نایاب آتا ہے میسر ہی نہ ہو جن کو چٹائی تک کوئی یارو کہاں ان کو خیالِ ریشم و کمخوِاب آتا ہے نجانے کیا خطا ہم سے ہوئی کہ اپنی دھرتی پر کبھی بھونچال آتا ہے کبھی سیلاب آتا ہے کھڑے ہو منتظر کب سے لگا کر آنکھ روزن سے ذرا ٹھہرو اُدھر دیکھو ابھی مہتاب آتا ہے مقدر کے سکندر ہم کہاں ٹھہرے اے عاکف جی نصیبوں میں ہمارے کب پرِ سرخاب آتا ہے ٭٭٭
عاکف غنی رحمتِ دو جہاں اے حبیبِۖ خدا مصطفٰےۖ مصطفٰےۖ ،مصطفٰےۖ مصطفٰےۖ آپۖ کا نام سنتے ہی جاری ہوا جذب و مستی میںہونٹوں پہ صلِ علیٰۖ ظلمتوں سے نکالا ہمیں آپۖنے آپ ۖ نورِ خداۖ ،آپ نورِ ہُدٰیۖ آپۖ نے دینِ حق کو مکمل کیا خاتم الانبیائۖ ،خاتم الانبیائۖ دہر میں آپۖ کی رہ پہ جو بھی چلا آپۖ اس کی کریں گے یقینا شفاء غم میں امت کی روتے رہے عمر بھر آپ خیرالورٰیۖ ،آپ خیر الورٰیۖ آپۖ آئے چمن میں بہار آ گئی آپ کے دم سے دنیا میں پھیلی ضیاء ہادیِٔ انس و جاں ، حامیِٔ بیکساں آپۖ اللہ کی ہیں ایک احسن عطا آپۖ بِن تو مکمل نہیں دین بھی لاکھ کرتا رہے کوئی ذکرِ خدا اتباع آپۖ کا میں ہمیشہ کروں ہے خدا سے یہی بس مری التجا ٭٭٭
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں