کہیں موجِ حوادث ہے کبھی سیلاب آتاہے

غزل
…٭…
کہیں موجِ حوادث ہے کبھی سیلاب آتاہے
جدھر لے جائیں ہم کشتی ، اُدھر گرداب آتا ہے
وطن سے دور دل پرکیا بتائیں کیا گزرتی ہے
خیالِ دوستاںکرنے بہت بیتاب آتا ہے
مقدر رتجگے ہوں تو لگے یہ آنکھ پھر کیسے
جگانے یاد کا لمحہ کوئی نایاب آتا ہے
میسر ہی نہ ہو جن کو چٹائی تک کوئی یارو
کہاں ان کو خیالِ ریشم و کمخوِاب آتا ہے
نجانے کیا خطا ہم سے ہوئی کہ اپنی دھرتی پر
کبھی بھونچال آتا ہے کبھی سیلاب آتا ہے
کھڑے ہو منتظر کب سے لگا کر آنکھ روزن سے
ذرا ٹھہرو اُدھر دیکھو ابھی مہتاب آتا ہے
مقدر کے سکندر ہم کہاں ٹھہرے اے عاکف جی
نصیبوں میں ہمارے کب پرِ سرخاب آتا ہے
٭٭٭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نعت شریف

نعتۖ