ایک طویل عرصے سے پیرس میں مقیم ہوں، پاکستان کا چکر لگتا رہتا ہے مگر یہ پہلا موقع ہے کہ رمضان کا ابتدائی حصہ پاکستان میں گزرے گا۔سحری سے بہت دیر پہلے مسجد کے سپیکر مولانا کی آواز نے اٹھا دیا، حالانکہ میں نے تو سحری تیار کرنی نہیں تھی ۔ دوبارہ سونے کی کوشش کی تو پھر سے مولانا کی آوا ز یاد دہانی کراتے ہوئے کانوں سے ٹکرائی کہ اتنا وقت رہ گیا ہے سحری میں ، ابے ایک دفعہ اٹھا دیا تو بار بار کیوں تنگ کرتے ہو۔ کل تک جس لاؤڈ اسپیکر کو حرام قرار دیتے تھے اسی سے ہماری جان کھائے جا رہے ہو۔ سحری پہ اٹھنے کے لئے موبائل ہے نا، موبائل پہ ہم اپنی مرضی کا الارم لگا سکتے ہیں اور سحری کے لئے ضروری نہیں کہ گھنٹوں پہلے اٹھا جائے یہ کام جھٹ پٹ بھی ہو سکتا ہے۔
کہیں موجِ حوادث ہے کبھی سیلاب آتاہے
غزل …٭… کہیں موجِ حوادث ہے کبھی سیلاب آتاہے جدھر لے جائیں ہم کشتی ، اُدھر گرداب آتا ہے وطن سے دور دل پرکیا بتائیں کیا گزرتی ہے خیالِ دوستاںکرنے بہت بیتاب آتا ہے مقدر رتجگے ہوں تو لگے یہ آنکھ پھر کیسے جگانے یاد کا لمحہ کوئی نایاب آتا ہے میسر ہی نہ ہو جن کو چٹائی تک کوئی یارو کہاں ان کو خیالِ ریشم و کمخوِاب آتا ہے نجانے کیا خطا ہم سے ہوئی کہ اپنی دھرتی پر کبھی بھونچال آتا ہے کبھی سیلاب آتا ہے کھڑے ہو منتظر کب سے لگا کر آنکھ روزن سے ذرا ٹھہرو اُدھر دیکھو ابھی مہتاب آتا ہے مقدر کے سکندر ہم کہاں ٹھہرے اے عاکف جی نصیبوں میں ہمارے کب پرِ سرخاب آتا ہے ٭٭٭
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں