اخلاقی زوال کی منہ بولتی مثال ۔برہنہ جانچ پڑتال

ہمارا اخلاقی زوال کی منہ بولتی مثال ۔برہنہ جانچ پڑتال

عاکف غنی----

چند روز قبل یہاں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ،پاکستان پریس کلب ،پیرس (فرانس) کے ایک ڈنر میں کراچی میں تعینات فرانس کے قونسل جنرل عزت مأب جناب پیٔر سیاں جنہیں پاکستان کے کچھ دوست فرانسیسی تلفظ کی صحیح ادائیگی نہ ہونے کے سبب پیارے سیَاں بھی کہہ کر پکارتے ہیں مہمانِ خصوصی تھے ۔انہوںنے اپنے خطاب میں چند ایسے نکات کا اظہار کیا جو ہیں تو بالکل سچ مگر سچ چونکہ کڑوا ہوتا ہے اس لئے پسند تو کسی کو نہ آیا البتہ میرا، ان کے یہ نکات کو سن کر شرمنگی سے عرقناک ہونا فطرتی امر تھا کہ خدا نے نہ صرف دلِ فطرت شناس عطا کر رکھا ہے بلکہ اچھائی اور برائی میں تمیز اوربحیسیتِ کالم نگار اپنی قومی غلطیوں پر تدبر و تفکر کا ملکہ بھی ۔ پیٔر سیاں نے پاکستانیوں کے مسائل کی نشاندہی کرنے پر کچھ وضاحتیں پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کے اور ہمارے کلچر میں بہت فرق ہے کہ آپ کے ہاں تو آموں کی پیٹی(رشوت) سے بھی کام چلایا جاتا ہے اور بغیر شناختی کاغذات کے گھوما جا سکتا ہے، ویزا لگوانے کے لئے پیسنٹھ فی صد پاکستانی جعلی کاغذات کا سہارا لیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں شناختی کاغذات کی بہت اہمیت ہے اور کام میرٹ پر ہوتے ہیں ،سب کچھ صحیح ہو تو کام ہو جاتا ہے اور جعلی کاغذات پر تو کام ہونے کا سوال ہی پیدا نہیںہو تا۔ پیٔر سیاں کی ان باتوں کو سنے کئی دن گزر گئے مگر ان کی بازگشت اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے اور آج جب نواز شریف کا یہ بیان سنا کہ اگر میں صدر کی جگہ ہوتا تو اسثنائی حالات کے باوجود خود کو عدالت میں پیش ہو کر بے گناہ ہونے کا سر ٹیفکیٹ حاصل کرتاتو مجھے حضرت عمر کے دورِ خلافت میں ان سے ان کو بیٹے کی طرف سے دیئے گئے کرتے کا بھی سوال کر دیا گیا اور آج ہماری عدالت نے جب این آر کو غلط قرار دیا تو ہمارے صدرِ محترم کو اپنے خلاف سازشیں نظر آنے لگیں۔ہمارے ہاںجھوٹ،جھوٹے وعدوں اور جھوٹی قسموں کو سیاست کا نام دے دیا گیا ہے۔جس کے خلاف جتنابڑا الزام ہو اسے اتنے ہی بڑے اعزاز سے نواز دیا جاتا ہے، قانون شکنی کرنے والے قانون کے وزیر بن جاتے ہیں اور اگر قانون شکن کوئی فوجی ہو تو اسے باقائدہ اعزاز کے ساتھ محفوظ رستہ دیا جاتا ہے۔ جھوٹ،فریب،دھوکہ دہی ،رشوت ستانی اورنمود و نمائش ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔پاکستان کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جو ان برائیوں سے بچا ہوا ہو۔پاسپورٹ کا معاملہ ہو یا شناختی کارڈ کا ، پاکستان میں لوگوں کے پاس دو،د و ناموں سے موجود ہوں گے ،جعلی کاغذات پر سفر کرنا انسانی سمگلنگ کا کاروبار اورباہر کے لالچ میں لوگوں کو بیوقوف بنانا عام ہے اور تو اور جعلی اسلحہ اور اسلحہ لائسنس عام ملتے ہیں۔فرانس میں یہاں کے قومی تہوار ہوں یا مسلمانوں کے مذہبی تہوار یہاں کھانے پینے والی اشیاء پر خصوصی رعائیت عام کر دی جاتی ہے۔رمضان میں کھجوریں یا روزے کی افطاری کے سلسلے کی اشیاء کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں،جبکہ پاکستان میں عیدین اور رمضان کے دوران لوٹ بازار لگ جاتے ہیں قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں اور صارفین کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے کا سامان ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کسی بھی قوم پر ویسے ہی حاکم مسلط کئے جاتے ہیں جیسی وہ قوم ہوتی ہے ،ہو سکتا ہے یہ صحیح ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ یہ حاکم ہی قوم کو خراب بھی کرتے ہیں۔اگر ہمارے رہنما ہی جھوٹ اور مکر و فریب کا سہارا لے آگے بڑھیں گے تو قوم تو لازماََ ان کے نقشِ قدم پر ہی چلے گی۔ انتخابات ہوتے ہیں تو قوم بھی انہیں لوگوں کو ووٹ سے نوازتی ہے جو ان کی ذات برادری سے تعلق رکھتے ہوں ،تھانے کچہری کے معاملات میں ان کی معاونت کرتے ہوں اور بس۔ اب یہ تھانہ کلچر بھی عجیب نظام ہے کہ پولیس جسے عوام کا ہمدرد ہونا چاہیئے وہ سیاستدانوں کے کارندے بن کر کام کرتے ہیں ،اور کسی بھی شخص کو ان سیاستدانوں کی آشیرباد کے بغیر نہ تو پکڑ سکتے ہیں اور اگر کسی کو پکڑ بھی لیں تو اس کے ایسے ہی کسی سرپرست کی ایک فون کال سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پاکستان وہ اونٹ ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ،صوبائی عصبیت یہاں پائی جاتی ہے۔لسانی و مسلکی جھگڑے یہاں ہوتے ہیں، یہاں تک کہ یہاں کا آئین بھی ترمیموں کی زد میں رہتا ہے ۔کبھی ایک آمر اسے صدارت کی طرف لے جاتا ہے تو کبھی جمہوری قوتیں اسے پھر صحیح کرنے کی آڑ میں چیر پھاڑ کرتی ہیں ،ترمیم در ترمیم کا سلسلہ جاری ہے اور اب تہتر کا متفقہ آئین، ستائیس برس بعد اٹھارہویں ترمیم کی زد میں آنے والا ہے۔اٹھارویں ترمیم شائد کب کی آ گئی ہوتی مگر مسئلہ پھر وہی اقتدار کی حوص کا ہے کہ اتفاقاََ زرداری صاحب کے سر پر جو ہُما بیٹھا ہے وہ اس کے اڑ جانے سے ڈرتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی ادارہ کاملاََ صحیح سمت میں کام نہیں کر رہا۔ اگر سب صحیح کام کر رہے ہوتے تو آج پاکستان دولخت نہ ہوا ہوتا۔تقسیم شدہ پاکستان بھی زبان و مذہب،رنگ و نسل اورجھوٹی اناؤں کا شکار نہ ہوا ہوتا۔یہاں اگر صحیح کام ہو رہا ہوتا تو یہاں کوئی معین قریشی اور کوئی شوکت عزیز اسے لوٹ کر فرار نہ ہو گئے ہوتے۔مشرف کو پروٹوکول کے ساتھ نہ فرار کیا جاتا۔ایٹم بم اور میزائل دینے والے کو نظربند نہ کیا جاتا۔یہاں کے ادارے صحیح کام کر رہے ہوتے تو آج پی آئی اے لاکھوں پاکستانیوں کی آنکھ کا تارا ہوتا، ریلوے کا نظام اچھا ہوتا تو آج کراچی سے اسلام آباد اور لاہور تا کراچی ،پشاور تا اسلام آباد غرض ہر بڑے شہر میں ہائی سپیڈ ٹرینیں چل رہی ہوتیں اور بڑے شہروں میں میٹرو چل رہی ہوتی۔ملک میں جعلی ادویا ء کی بجائے اصلی ادویاء بن رہی ہوتیں اور سرکاری ہسپتالوں کا معیار اتنا بلند ہوتا کہ ہمارے بڑے بھی انہی ہسپتالوں میں علاج کر وا رہے ہوتے۔ تعلیم کا نظام اچھا ہوتا،استادوں کی تنخواہیں بہتر ہوتیں اور وہ ٹویشنوں پر گزارا کرنے کی بجائے خوشی خوشی سکولوں ہی میں ملازمت کر کے بہتر زندگی گزار رہے ہوتے۔غرض یہ کہ بلند بانگ دعوے نہیں ہوتے کام ہوتا۔صدر سے لے کر عام آدمی تک جھوٹ ،فریب اور مکر کی بجائے کام کر رہا ہوتا تو آج پاکستان کا نام روشن ہوتا ۔اول تو دوسرے ملکوں میں جانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی اور اگر ضروت پڑ بھی جاتی تو دوسرے ملک ہمیں خوشی خوشی ویزے دے رہے ہوتے۔ افسوس مگر ایسا نہیں بلکہ ہمارا حال یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں جہاں لاکھوں پاکستانی معاشی مجبوریوں کے باعث ملک سے دوری کا عذاب سہہ رہے ہیں وہیں الطاف بھائی جیسے لیڈر موت کے خوف سے لندن میں ڈیرہ لگائے بیٹھے ہیں اور اب قوم کو مکے دکھا کر اپنی کمانڈو صفات سے ڈرانے والے جرنیل اپنے ٹرائل کے خوف سے راہِ فرار اختیار کئے بیٹھے ہیں۔جبکہ امریکہ اور یورپ والے سیکیورٹی کے نام پر پاکستانیوں برہنہ کو کرنے پہ اتر آئے ہیں۔ 29/01/2010 (Paris)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نعت شریف

نعتۖ