سیلابی آفت اور پاکستان کا نیرو
سیلابی آفت اور پاکستان کا نیرو
عاکف غنی
روم جل رہا تھا اور نیر وبنسری بجا رہا تھا یہ فقرہ اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ روم کی اس آگ کا تو شائد ہی کسی کو معلوم ہو جس نے چھ دن میں روم شہر کے چودہ میں سے دس اضلاع کو جلا کر خاکستر کر دیا اور ان میں سے تین کا تو نام و نشان بھی باقی نہیں بچا تھا اس وقت روم کا شہنشاہ نیرو تھا جو کہ متنازعہ شخصیت تھا اور یہ متنازعہ شخصیت ایک فرضی کردار نہیں بلکہ تاریخ کا ایک حقیقی کردار تھا۔ نیروسلطنت روم کا شہنشاہ تھا جو پانچواں اور آخری سیزر ثابت ہوا۔ نیرو حادثاتی طور پر تخت نشیں ہوا۔ یہ شہنشاہ کلاڈیس کا بھتیجا تھا جس نے اپنے بھتیجے کو اپنا جانشیں مقرر کیا۔ نیرو 15 دسمبر 37ء کو پیدا ہوا۔ 54 ء سے 68ء تک روم کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ مؤرخ فیصلہ نہیں کر پایا کہ اس کے سیاہ کارنامے زیادہ ہیں یا سفید۔ ظلم و سفاکی اور بے حسی میں شہرت رکھتا تھا۔ اپنی ماں ،دو بیویوں اور اپنے محسن کلاڈیس کے بیٹے کو قتل کرایا۔ 68 ء میں فوج نے بغاوت کر دی تو شہنشاہ معظم ملک سے بھاگ نکلے۔ سینٹ نے ان کو موت کی سزا سنائی لیکن اس نے پھانسی سے قبل صرف 31 سال کی عمر میں 68ء میں خود کشی کر لی ۔یہ تو سچ ہے کہ 18 جولائی 64ء میں روم واقعی آگ کی لپیٹ میں آیا تھا۔ خوفناک آگ چھ دن تک بھڑکتی رہی 14 اضلاع میں سے 4 جل کر خاکستر جبکہ سات بری طرح متاثر ہوئے۔ ایک روائت کے مطابق جب یہ الاؤ روم کے در و دیوار کو بھسم کر رہا تھا اس وقت نیرو ایک پہاڑی پر بیٹھا بنسری بجا کر اس نظارے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آگ اس کے حکم سے ہی لگائی گئی تھی۔ تاہم مورخ ٹیسی ٹس کے مطابق (اس واقعہ کے وقت اس کی عمر نو سال تھی)۔ جب روم شعلوں کی لپیٹ میں تھا نیرو روم میں نہیں بلکہ وہاں سے 39 میل دور اینٹیم میں تھا۔ اس نے واپسی پر ذاتی خزانے سے متاثرین کی بحالی کی کارروائیاں شروع کیں اور اپنا محل بے گھر ہونیوالوں کیلئے کھول دیا۔ اس نے روم کو نئے سرے سے بسایا خوبصورت عمارتیں اور کشادہ سڑکیں تعمیر کرائیں۔ آگ لگانے کے الزام میں اس نے بے شمار عیسائیوں کو قتل کرا دیا۔حقیقت جو بھی ہو نیرو بے حسی کا استعارہ بن چکا ہے۔ جو اپنے ہی وطن میں لگی آگ سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اسے اپنے وطن سے غرض ہے نہ رعایا کے مصائب و آلام سے۔
آج پاکستان سیلاب میں ڈوب چکا ہے کروڑوں لوگ بے گھر ہو چکے ،ہزاروں سیلابی ریلوں کے بے رحم تھپیڑوں کے ہاتھوں لقمۂِ اجل بن چکے جبکہ پاکستان کا نیرو زرداری، پیرس و لندن کی سیر کو نکل چکا ہے۔زرداری صاحب جنہیں پاکستان کے ایسے حالات میں پاکستان ہونا چاہیے تھا سیر سپاٹوں سے لطف اندوز ہوتے پھر رہے ہیں۔فرانس کے صدر سارکوزی کی پندرہ منٹ کی ملاقات میںسارکوزی صاحب، زرداری صاحب کو صرف یہی زور دیتے نظر آئے کہ انتہا پسندوں کی خلاف پاکستان کو مزید کچھ کرنا ہوگا اور لندن میں تو صدر موصوف کو جانا ہی نہیں چاہیے تھا کہ انگریز وزیراعظم صاحب پاکستان کے بارے جو کچھ ہندوستان میں فرما چکے تھے اس کے جواب میں یہ دورہ منسوخ ہو جانا چاہیے تھا اوپر سے پاکستان کے حالات جہاں ایک طیارہ تباہ ہونا ہی صدر صاحب کے دورے کو منسوخ یا مؤخر کرنے کے لئے کافی تھا ،یہاں تو پورا ملک ہی پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔
زرداری صاحب کے اس دورے کی مخالفت نہ صرف اپوزیشن کے تمام حلقوں کی طرف سے کی گئی بلکہ اہلِ فکر و دانش اور متعلقینِ ابلاغیات کی طرف سے بھی اس دورے کو غیر ضروری اورنامناسب قرار دیا گیا۔برطانیہ میں بھی لارڈ نذیر جیسی نظریاتی شخصیت اورشاہد ملک جیسے نوجواں رہنما سمیت کئی دیگر افراد کی طرف سے ان کے خلاف احتجاج سے بھی زرداری کی آنکھیں کھل جانی چاہیئیں تھیں مگر وہ نہ صرف ملک کو ڈوبتا ہو اچھوڑ کر مغرب کو سدھار گئے بلکہ اب اس دورے کی مخالفت کرنے والوں کی نیتوں پر شک کر رہے ہیں۔
پاکستان کا حال اب ایسا ہو چکا ہے جیسے یہ عذابِ الٰہی کی زد میں ہو کہ کہیں سیلاب تو کہیں بیجا قتل و غارت اور پھر اچانک حادثات ۔ایسے میں ہمیں سوچنا چاہیئے تھا کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے ،ایسی کون سی خطا ہے جس کی یہ سزا ہمیں دی جا رہی اور اس سے بچنے کا راستہ کیا ہے۔یہ کام صرف حکمرانوں ہی کا نہیں بلکہ عوام کا بھی ہے کہ سب بیٹھ کر سوچیں کہ کس طرح اس تباہ ہوتے ملک کو بچایا جائے۔
عوام کو چاہیئے کی اپنے نمائیندے چنتے وقت ان کے انسانی اوصاف پر نظر ضرور رکھا کریں جبکہ حکمرانوں کو اپنی شاہ خرچیوں میں کمی کرنا ہوگا ،غیر ملکی دوروں سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا، اپنے لٹتے پٹتے عوام کے پاس جائیے ،ان کے آنسو پونچھیے ،اس سے عوام بھی خوش ہوگی اور خدا بھی۔اپنے اللے تللے چھوڑیئے اور ملک کا سوچیئے۔روم تو جل کر بچ گیا اور پھر سے ایک بہت بڑا تہذیبی مرکز بن گیا، پاکستان کو ہم پہلے ہی نصف گنوا چکے ہیں اب جو باقی بچا ہے اسے تو غرق ہونے سے بچالیں۔
چند دن پہلے تک یہاں پانی کی قلت تھی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل کا سامنا تھا، صوبے آپس میں لڑ رہے تھے،اب اتنا پانی آ گیا کہ سنبھالا نہ گیا کہیں یہ اس لڑائی کے نتیجے میں خدا کی ناراضگی کا ظہار تو نہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو ہمیں توبہ کرنا ہوگی اور ایک دوسرے کے ساتھ باہم دست و گریباں ہونے کی بجائے ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا ہوگا اور صبر و ایثار سے کام لینا ہوگا،جہاں پاکستان کا کونہ کونہ سیلاب کی زد میں ہے وہیں کراچی میں نفرت کے شعلوں نے روشنیوں کے شہر کو آگ کا شہر بنا کے رکھ دیا ہے۔اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے اس مسئلے کا دیرپا حل ہونا چاہیئے اور ذمہ داران کو سزا ملنے چاہیئے تاکہ آئیندہ وہ ایسے گنھاؤنے کارناموں سے بعض رہیں۔ہم ہر واقعے کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں جبکہ اس کے اسباب کی طرف توجہ نہیں دے رہے ،یہی وجہ ہے کہ رحمن ملک کا ایک دورہ وقتی طور پر تو سب کو ٹھنڈا کر جاتا ہے مگر ٹھوڑے عرصے کے بعد پھر سے یہی مسئلہ دوبارہ سر اٹھا لیتا ہے۔حقیقت میں تو ہمارا اصل مسئلہ بد انتظامی ہے کہ ہم وقتی حل تو ڈھونڈلیتے ہیں مگر دیرپا اور پائیدار حل کی تلاش سے گھبراتے ہیں۔ اگر یہ بد انتظامی ختم ہوجائے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں،اب یہ پانی ہی کا مسئلہ دیکھ لیں اگر اس سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی طریقہ سوچ لیا جائے تو مون سون کا موسم ہمارے لئے رحمت بن جائے، ان موسمی بارشوں کے نتیجے میں آنے والایہ سیلاب نہ تو انس و حیواں اور املاک کو نقصان پہنچا سکے اور نہ ہی ہمیں پانی کی قلت کا سامنا رہے۔ایک مہینے میں یہاں اتنا پانی آ جاتا ہے کہ اس کو محفوظ کر کے سارا سال نہ صرف اس آبی قلت سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے بلکہ بجلی کی وافر مقدار پیدا کر کے اس کی قلت سے بھی جان چھوٹ سکتی ہے۔
عاکف غنی ۔۔۔پیرس akifghani@hotmail.com
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں